Orhan

Add To collaction

تم فقط میرے

تم فقط میرے
از قلم سہیرا اویس
قسط نمبر9

🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀
"ہائے میری کمر۔۔!!" عنقا چیخ کر بولی۔
عدیل فوراً سے پہلے اٹھا، اور عنقا زمین پر لیٹی لیٹی کراہ رہی تھی۔
"جنگلی آدمی۔۔!! کمرے میں ایسے داخل ہوتے ہیں کیا؟" عنقا غرائی۔
"دروازہ کھولنا تھا تو بتا نہیں سکتی تھیں۔۔!!" عدیل ناک چڑھا کر تھوڑا برہمی سے کہا۔
عنقا نے ، اس کو کھا جانے والی نظروں سے گھورا اور "سی" کی آواز نکالتی کراہتی ہوئی اٹھی۔
 عدیل، اس کے دیکھنے کے انداز پر تپا تھا اور اس سے بڑھ کر کھا جانے والی نظروں سے گھورنے لگا۔
"اب کیا ہے۔۔ ایسے کیوں دیکھ رہے ہو۔۔؟؟" عنقا اپنا ہاتھ پیچھے کی طرف ، ہلکا سا موڑ کر ، اپنی کمر سہلاتے ہوئے،  غصے سے بولی۔
"تم ۔۔ کچھ زیادہ ہی فرینک ہو رہی ہو۔۔!!" عدیل لفظوں کو چباتے ہوئے ، غضب ناک ہو کر بولا اور اس کے قریب آیا۔
"بس اب بہت ہوگیا، اپنی اوقات میں رہنا سیکھو!! اور اپنے یہ کڑے تیور ذرا قابو میں رکھا کرو۔۔!! سمجھیں۔۔!!" عدیل نے اپنا ہاتھ، اس کے سر تک لے جا کر، اس کے بالوں کو سختی سے اپنی مٹھی میں جکڑ کر کہا۔
"آہ۔۔!! جنگلی کہیں کے میرے بال چھوڑو۔۔!!" عنقا ، اس کے احکام پر کان دھرے بغیر، زور چلائی۔
عدیل کو اس کی ہٹ دھرمی پر رج کے غصہ آیا اور پھر اس کا مارا ہوا تھپڑ بھی یاد آ گیا۔
اس لیے، اس نے اس کے بال چھوڑ کر ، چہرے پر زور دار طمانچہ مارا اور عنقا کے مارے گئے تھپڑ کا بدلہ لیتے ہوئے سختی سے خبردار کیا۔۔
"اب مجھے اس نام سے پکارا تو واقعی جنگلی بن کر دکھاؤں گا، اور یہ جو تم تھوڑی بہت سلامت نظر آ رہی ہو ناں، یہ بھی نہیں آؤ گی۔۔!!  اور دوسری بات۔۔ میں کوئی تمہارا عاشق یا بوائے فرینڈ نہیں جو یہ "تم،تم" کہہ کر بدتمیزی سے مخاطب کرتی ہو۔۔ آئیندہ اپنے لیے، تمہارے منہ سے، یہ طرزِ تخاطب دوبارہ نہ سنوں۔۔!! تم بھی مجھے اریزے کی طرح۔۔"آپ" کہہ کر مخاطب کیا کرو۔۔!! میری باتیں اچھی طرح ذہن میں بٹھا لو۔۔۔!!"
وہ، اسے اپنی قہر آلود نظروں سے گھورتا ہوا بولا۔
عدیل کی حرکات اور اس کے الفاظ نے ایک بار پھر عنقا کو رُلایا، 
"تم جنگلی ہو۔۔ اور میں تمہیں جنگلی ہی کہوں گی۔۔!! چاہے۔۔ جو مرضی کرلو۔۔ اور تم بھی یہ بات اپنے ذہن میں رکھ لو کہ میں اریزے نہیں ہوں۔۔ میں تمہیں "تم" ہی کہوں گی۔۔ اریزے تم سے محبت کرتی تھی اور تمہاری عزت بھی۔۔!! جبکہ میں تم سے نفرت کرتی ہوں۔۔ اور عزت کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔۔!!" عنقا ڈھیٹ بنی رہی۔
عدیل نے اُس کی ہٹ دھرمی پر برہمی سے گھورا اور غصے سے "میری طرف سے بھاڑ میں جاؤ" کہتا اپنی واڈروب تک گیا، اور رات کے پہننے کے کپڑے نکالنے لگا،
"اور تم میری طرف سے بڑی والی بھاڑ میں جاؤ۔۔" عنقا بھی، اسی کا لہجہ، اسے واپس لوٹاتی، پیر پٹختی ہوئی وہاں سے چلی گئی۔
××××
عنقا، کمرے سے باہر نکل کر دوبارہ کچن کی طرف گئی، اتنی لڑائیوں کے بعد اس کی بھوک مزید بڑھ چکی تھی۔
کچن تک جاتے ہوئے، اس کی نظر، لاؤنج میں بیٹھے عادل پر پڑی تھی جسے وہ بڑی شان سے نظر انداز کر گئی، " تم نے بھی سارا الزام مجھ پر ڈال دیا۔۔ہو تو تم بھی اپنے بھائی جیسے۔۔!!" اس نے دُکھ سے سوچا اور پھر، اس کے متعلق مزید کچھ بھی سوچنے سے خود کو باز رکھتے ہوئے اپنے کام میں مشغول ہوگئی۔
اس کا دل، عادل سے بھی کھٹا ہو چکا تھا۔
ظلم صرف اس کے ساتھ تو نہیں ہوا تھا۔۔ عنقا بھی تو مفت کی سزا بھگت رہی تھی۔۔ پھر وہ کیسے سارا الزام اس پر دھر سکتا تھا۔۔ کیسے اس سے شکوہ کر سکتا تھا کہ اُس نے گھٹیا حرکت کی۔۔!! 
وہ تو مجبور تھی، اپنے ماں باپ کے آگے، وہ مجبور تھی۔۔عدیل کی زندگی کے آگے۔۔!! اگر وہ نہ مانتی تو عدیل پھر سے خودکشی کی کوشش کر سکتا تھا۔۔ اور ایسے میں، اُسے اپنا آپ ، عدیل کا قاتل لگتا۔۔ وہ کیسے اس گلٹ کے ساتھ زندہ رہتی کہ ایک اور شخص اس کی وجہ سے مرا ہے۔۔!! اریزے والا دکھ کم تھا جو وہ ایک اور تکلیف بھی ، اپنے حصے میں لے لیتی۔۔!!
××××
عنقا، کھانا وانا کھا کر ، برتن سمیٹ کر واپس گئی تو عدیل نے دروازہ اندر سے لاک کر رکھا تھا۔
عنقا نے ، شدت سے تلملائی تھی۔
 " اللّٰه کرے۔۔ تمہیں ساری رات نیند نہ آئے، اللّٰه تم سچ مُچ میں بھاڑ میں جاؤ۔۔!!" وہ، اس کو، اونچی آواز میں کوستی ہوئی وہاں سے چلی گئی اور جا کر گیسٹ روم میں سوئی۔ 
عدیل نہ اس کی بددعائیں ، ایک کان سے سن کر دوسرے سے نکالنے کی کوشش کی، پر نکال نہ سکا۔
اسے۔۔ عجیب سی بے چینی کا احساس ستانے لگا تھا۔۔ جسے وہ کوئی نام نہ دے پایا، رات کے دو بج چکے تھے اور وہ کروٹوں پر کروٹیں بدلے جا رہا تھا۔ نیند تو جیسے آنے کا نام ہی نہیں لے رہی تھی۔
قرآن میں اللّٰه تعالیٰ فرماتا ہے: "جو لوگ مسلمان مردوں اور مسلمان عورتوں کو بغیر کسی جرم کے تہمت لگا کر تکلیف پہنچاتے ہیں، تو یقیناً وہ لوگ بڑے بہتان اور کھلے گناہ کا بوجھ اٹھاتے ہیں۔"
(سورۃ الاحزاب:58)
عدیل نے بھی تو مفت میں عنقا پر تہمت لگائی تھی کہ اس نے، اریزے کو مارا ہے۔۔ جبکہ ایسا کچھ نہیں تھا۔۔ اور یہ بات وہ خود بھی اچھے سے جانتا تھا۔۔لیکن پھر بھی، اس نے ایسا کیا۔۔ پھر بھی یہ سارا ڈرامہ رچایا۔۔ پھر بھی وہ اس کو اذیت پہنچا رہا تھا۔۔ اور بہت گناہوں کا بہت سارا بوجھ، اپنی روح پر لاد رہا تھا۔
اپنی من مانی کرکے۔۔ اس کی انا کو قرار آیا تھا۔۔ مگر یہ کیا۔۔ انا کے ہاتھوں کٹھ پتلی بننے کے چکر میں، اس نے جو، اپنے ضمیر کو بے ہوشی کی نیند سلایا تھا۔۔وہ ضمیر اب جاگنے لگا تھا۔
رات کی تاریکی میں۔۔۔ اس کے ذہن پر چھائے اندھیرے،  ختم ہونے لگے تھے۔۔ ابھی تو ایک دن بھی نہیں گزرا تھا عنقا پر ظلم کیے۔۔ اور ابھی سے وہ بے چین ہوگیا تھا۔۔ ابھی سے ، اس کی عقل پر پڑا پردہ، اترنے لگا تھا۔
خیر ابھی تو اس کے اندر کی یہ تبدیلیاں رونما ہونے کے اولین مراحل میں تھیں۔۔ ابھی رونما ہوئی نہیں تھیں۔۔ سو۔۔ ذرا سا وقت تو لگنا تھا۔۔ اسے اپنی غلطی کا احساس ہونے میں۔۔ذرا سا وقت تو لگنا تھا سنبھلنے میں۔۔!!
وہ کچھ دیر مزید، اس نا سمجھ میں آنے والی بے چینی کا شکار رہا اور پھر اللّٰه اللّٰه کرکے، تین بجے کے بعد، نیند اس پر مہربان ہوئی اور اس کی بے چینی میں کمی واقع ہوئی۔

   1
0 Comments